Maa Baap Emotinal Shayari

235+ Latest Maa Baap Emotional Shayari in Urdu

Our hearts have an exclusive place towards our parents due to the deep way that their unconditional affection and efforts have impacted our lives. Poetry frequently focuses on the connections between kids and their parents, especially during heartfelt shayari. We express an incredible amount of admiration and love for our parents, and Maa Baap Emotional Shayari in Urdu describes these emotions wonderfully.

These Maa Baap Emotional shayari in Hindi often convey our gratitude and respect for our moms and dads. They bring effort to the generous devotion, focus, and compromises parents convey to their children. Maa Baap Emotional Shayari 2 Lines acts as an opportunity for expressing emotions and sensations that are usually ignored to our parents through meaningful language and lovely pictures.


All in all, Maa Baap Emotional Shayari in English is an authentic means of conveying to our parents just how much we enjoy, romance, and admire them. It acts as an annual reminder of the important role they perform in building our personalities and boosting our desires. These Maa Baap Emotional Sad shayari are turned into an emotional tribute to the permanent connection among parents and children—a partnership characterized by affection, generosity, and unwavering support—by a literary language. If you want unique shayari then click Zindagi Shayari in Hindi.

Maa Baap Emotinal Shayari

ماں باپ کا ایک ایسا رشتہ ہے
جس کی کمی کوئی اور پوری نہیں کرسکتا

“Maan baap ka aik aisa rishta hai:
Jis ki kami koi aur poori nahi kar sakta,

سب کچھ مل جاتا ہے دنیا میں مگر
یاد رکھنا کہ بس ماں باپ نہیں ملتے

Sab kuch mil jata hai duniya mein magar,
Yaad rakhna ke bas maan baap nahi milte,

خدا کرے وہ لمحے کبھی ختم نہ ہوں
جن لمحوں میں میرے والدین مسکراتے ہیں

Khuda kare woh lamhe kabhi khatam na hon,
Jin lamhon mein mere waldain muskuratay hain,

والدین کی روک ٹوک بھی ایک نعمت ہے
ورنہ اولاد جگہ جگہ زلیل و رسوا ہوتی نظر آئے

Waldain ki rok tok bhi aik naimat hai,
Warna aulad jaga jaga zaleel o ruswa hoti nazar aati hai,

دور ہوتی ہیں سدا ان سے بلائیں ساحل
اپنے ماں باپ کی جو روز دعا لیتے ہیں

Door hoti hain sada un se bulaien saahil,
Apne maan baap ki jo roz dua lete hain,

والدین اس درخت کی مانند ہیں جن کے سائے تلے
بچے خود کو سب سے زیادہ محفوظ محسوس کرتے ہیں

Waldain iss darakht ki manind hain jin ke saaye tale,
Bachay khud ko sab se zyada mahfooz mehsoos karte hain,

ماں کے بنا پورا گھر بکھر جاتا ہے پر
باپ کے بنا پوری دنیا ہی بکھر جاتی ہے

Maan ke bina pura ghar bikhar jata hai par,
Baap ke bina poori duniya hi bikhar jati hai,

زندگانی کے سفر میں گردشوں کی دھوپ میں
جب کوئی سایا نہیں ملتا تو یاد آتی ہے ماں

Zindagani ke safar mein gardishon ki dhoop mein,
Jab koi saaya nahi milta to yaad aati hai maan,

جو رولا کے ہنسا دے وہ ہے باپ اور
جو رولا کے خود رو پڑے وہ ہے

Jo rula ke hansa de woh hai baap aur,
Jo rula ke khud ro pare woh hai,

کس قدر تکلیف میں ہوں گے وہ بچے
جنہیں ماں کی ضرورت ہو اور ماں نہ ہو

Kis qadar takleef mein honge woh bachay,
Jinhe maan ki zaroorat ho aur maan na ho.”

شان و شوکت سے جی رہا ہو جو
باپ ماں کے دعا کی برکت ہے

“Shaana aur shaukat se ji raha ho jo:
Baap maan ke dua ki barkat hai,

ماں باپ کی اہمیت ان سے پوچھو جنہیں اپنے
ماں باپ سے ملنے کے لئے قبرستان جانا پڑتا ہے

Maan baap ki ahmiyat un se poocho jinhain apne,
Maan baap se milne ke liye qabristan jana parta hai,

‏ماں زندگی کی تاریک راتوں میں روشنی ہے
‏باپ ٹھوکرو سے بچانے والا مضبوط سہارا ہے

Maan zindagi ki taareek raaton mein roshni hai,
Baap thokro se bachane wala mazboot sahara hai

جسے ماں باپ کی بات سمجھ نہیں آتی
اسے زمانہ بہت ’’اچھے طریقے‘‘سے سمجھا لیتا ہے

Jise maan baap ki baat samajh nahi aati,
Usay zamana bohat ‘achay tareeqay’ se samjha leta hai,

باپ کےآنسوتمھارے دکھ سےنہ گریں
ورنہ اللہ تمکوجنت سےگرادیگا۔

Baap ke ansoo tumhare dukh se na girein,
Warna Allah tumko junat se giradega.

آئے قلم روک جا آدب کا مقام ہے
تیری نوک کےنیچے میرے ماں باپ کا نام ہے

Aaye qalam rok ja, adab ka maqam hai,
Teri nook ke neeche mere maan baap ka naam hai,

Maa Baap Emotional Shayari

ماں باپ کا ایک ایسا رشتہ ہے
جس کی کمی کوئی اور پوری نہیں کرسکتا

سب کچھ مل جاتا ہے دنیا میں مگر
یاد رکھنا کہ بس ماں باپ نہیں ملتے

خدا کرے وہ لمحے کبھی ختم نہ ہوں
جن لمحوں میں میرے والدین مسکراتے ہیں

دور ہوتی ہیں سدا ان سے بلائیں ساحل
اپنے ماں باپ کی جو روز دعا لیتے ہیں

گھر جاکے بچوں کو کھلایا ہوگا
ان کو کیا معلوم کہ کس حال میں کمایا ہوگا

اپنے والد سے ہمکلام رہو
یوں وہ بوڑھا جوان رہتا ہے

بوجھ اینٹوں کا اور بڑھا دو صاحب
میرے بچے نے آج اک فرمائش کی ہے

مجھ کو چھاؤں میں رکھا اور خود جلتا رہا دھوپ میں
میں نے دیکھا اک فرشتہ باپ کے روپ میں

باپ کی دولت نہیں
سایہ ہی کافی ہے

اک ہستی ہے جو شان ہے میری
وہ کوئی اور نہیں امی جان ہے میری

ماں ایک نور ہے جس کی وجہ سے
تمام دنیا میں چمک اور دمک قائم ہے 

سخت راتوں میں بھی آسان سفر لگتا ہے 
یہ میری ماں کی دعاؤں کا اثر لگتا ہے 

لبوں پر اس کے بددعانہیں ہوتی
بس ایک ماں ہے جو خفا نہیں ہوتی

میں ستارہ تھا تیری آنکھوں کا
ماں! مجھے دیکھ اب کہاں ہو میں

رہتی ہے ماں کی محبت دنیا میں بےمثال
بے آس بن کر اہل وعیال کا کرتی ہے خیال

کہلائے عظیم الشان تحفہ مالک الملک کا
پاکیزہ آنچل بھی لگتا ہے نہایت پر جمال

چڑھتا ہے پروان پہلا مدرسہ آغوش میں
بانصیب ہو تو پھر ملے درجہ بدرجہ کمال

بن جاتی ہے خود تو قانع روکھے سوکھے پر
تاکہ اپنی اولاد کو دیکھ سکیں ہمیشہ نہال

کام آئیں ہر مشکل کے وقت ان کی دعاء
آہوں سے چھٹ جائیں غم کے بھی بادل

رہیں دراز عمر ناصر اس مورت ممتا کی
کرتے کرتے خدمت انکی ہو جنت حاصل

ہم اپنی محبت کا اظہار نہیں کرتے
ان کو مسکرا کر دیکھ کر عبادت کر لیتے ہیں

مگر ان سے پیار بھری باتیں نہیں کرتے
یوں تو دل کے ہر گوشے میں وہ ہی بسی ہیں ہمارے

مگر رات کو جب تک ان کا ہاتھ نہ تھام لیں خوابوں سے ملاقات نہیں کرتے
میرے سکوں کا ہر پل میری ماں سے جڑا ہے

میں آج جو کچھ بھی ہوں میری ماں کی دعا ہے
یوں تو دنیا نے متعین کیاہے ماں کے لیےبھی ایک دن

مگر ماں کے لیے میرے جذبات صرف ایک دن کے لیے عیاں ہوا نہیں کرتے
اپنی زندگی کا ہر پل لکھ دیاہے میں نے اپنی ماں کے نام

ہم اپنی ماں کے بغیر زندگی کا تصور کیانہیں کرتے

اے ماں تیرے بنا سوُنا ھے یہ جہاں
توُ نہیں تو ہر سوغموں کی ہیں اندھیریاں

خدا نے کہا موسیؑ سے بن ماں دھیان کرنا زرا
نبی جی کا فرمان کہ باپ سے ذیادہ تیراحق ہے ماں

کہا جوھر نے، بن ماں کے گھر لگتا ہے قبرستان
میں کہتا ھوں، گھر کیا سارا جہاں لگتا ہے بے نماں

تیری گود سے، مدرسے سے، کالج سے بڑھی میری توانایاں
ہر سو، ہردم، میری ہی بہتری کے لیے رہی تیری قربانیاں

رہی عمر بھر سایہ فگن تیری بے لوث مہربانیاں
نہیں نعم البدل تیرا کہیں بھی اے مــــــــــــــاں

کچھ بھی تو اچھا نہیں لگتا بن تیرے اے میری ماں
کہ زندگانی کا ہر پہلو تھا تجھ سے باغ و بہاراں

مانند شجر کےھم پہ تیرا سایہ رہا اور سہتی رھی تکلیفوں کو
کہ ہر پل، ہر کڑی دھوپ میں ھمارے لیے رہی تو سائیباں

تیرا گلاب چہرا، جس میں پوشیدہ میری خوشیاں
ہر دم چمکتا تھا میرے لیے اے میری پیاری ماں

ساری رونقیں تیرے ہی دم سے تھیں اے ماں
تو جب رخصت ہوئ، تو رخصت ہوئ سب خوشیاں

دیر سے آنا کام سے جب بھی میرا
بھانپ لیتا تھا میں، تیری پشیما نـیاں

پھر دیکھ کر ہر طرح خیریت میری
کتنی ہوتی تھی تجھے شادمانیاں

میں نے پردیس کاٹا، تونے سہی یہ جدائیاں
مگر ہم سے اب نہیں سہی جاتی یہ جدائیاں

خدا نے بہشت بنا کے رکھ دی تیرے قدموں تلے
تو ہے جنت میری، تیرے پاوں تلے جنت ہے ماں


یاد کرتا ہوں تجھے ہر دم، اور روتا رہتا ھوں
نظام قدرت ہے موت بھی، کہ تو ملے گی اب کہاں

میرے اعمال میں تو کچھ بھی نہیں ہیں نیکیاں
تیری دعا سے امید ہے خدا کامیاب کریگا ہر امتحاں

تو نے سب کچھ کیا ہے ھمارے لیے
ھم کچھ بھی نہ کر پائے تمھارے لیے

جب کہ تو نے ہر دم چاہی ھماری ہی بھلا ئیاں


کیا فائدہ اب پچھتاوں کے لکھنے کا
کہ تو دیکھ نہ سکے گی یہ لکھایاں

اب مانگتے ہیں اپنے رب سے پھر معا فیاں
پر یہ معافیاں نہ کر سکیں گی کبھی تلافیاں

وہ رحیم معاف کر دے گا تیری دعا سے
پر ضمیر میرا نہیں کرتا یہ مہربانیاں

کہ لگا نہ سکے تیرے لیے ہم اپنی ساری کمایاں
تو بچاتی رہی سب کچھ اور بچا دی پھر یہ پونجیاں

ربی اغفر کہہ کہ بچاتا ہوں اپنی جان
کہ یہاں بھی پائ اپنی خود غرضیاں

غلطیوں کا پتلا ہے یہ تیرا وسیـــــؔــــم
تو درگزر کر دیتی تھی جس کی نالائقیاں

الفاظ نہیں ملتے کہ بیاں کروں تیری خوبیاں
کوئ تجھ سا نہیں، تجھ سا نہیں، تجھ سا نہیں اے ماں

امی خوابوں میں میرے کبھی آیا تو کریں
ہاتھ شفقت سے بالوں میں میرے پھرایا تو کریں

یوں تو موجود ھیں آپ ھم سب میں کہیں
صورت اصلی بھی مگر یاد سے اپنی دکھایا تو کریں

اس زمانہ نے بہت پریشان رکھا تنگ کیا آپ کو
اب تو آزاد ھے ۔۔ ملنے کے لئے آیا تو کریں

اب بھی گرتا ھوں راہ میں چلتے چلتے
تب سہارے کے لئے ہاتھ بڑھایا تو کریں

تھک گیا ہوں امی میں حالات سے لڑتے لڑتے
حوصلہ میرا بڑھانے کو بھی آیا تو کریں

عمر بیت رہیں ھے خواہش میں ساتھ رہنے کی
وقت آخر ھے امی کبھی ساتھ تو بتایا کریں

امی خوابوں میں میرے کبھی آیا تو کریں
ہاتھ شفقت سے بالوں میں میرے پھرایا تو کریں

کرو دل سے خدمت، عبادت بن جائے گی
ماں باپ کی فرمانبرداری، امانت بن جائے گی

ہوگا جس دن، تمھارے گُناہوں کا حِساب
ماں باپ کی خدمت، ضمانت بن جائے گی

تیرے ہاتھوں کی کرامت کی تو پھر بات ہی کیا ماں 
مجھ کو تیرے قدموں کی مٹی بھی شفا دیتی ہے 

میری خواہش ہے کے میں پھر سے فرشتہ ہوجاؤ
ماں سے اس طرح لپٹ جاؤ کہ بچہ ہوجاؤ 

نجانے آٹے میں کیا ملاتی ہے ماں 
گھر جیسی روٹیاں دنیا میں کہیں نہیں ملتی 

جب بچے تھے تو جھگڑا ماں کے پاس سونے کا تھا 
جواں ہوئے تو بات کون ماں کو رکھے گا پے آگئی 

شہر کے رستے ہوں چاہے گاؤں کی پگڈنڈیاں 
ماں کی انگلی تھام کر چلنا بہت اچھا لگا 

پالنے والے چلے کیوں جاتے ہیں اتنی محنت کر کے
ہمیں اتنا بڑا کرتے ہیں اور چلے جاتے

احساس کمی چھوڑ گۓ وہ
انکو جانا تھا چلے گۓ وہ

اپنے پچھے کتنے کو روتا چھوڑ گۓ وہ
غم کے آنسو دریا بنا گۓ وہ ی

اپنوں کو اکیلا چھوڑ گۓ وہ
بہت کچھ ادھورا چھوڑ گۓ وہ

اپنا پیار محبت ساتھ لے گۓ وہ
بہت سی یادیں چھوڑ گۓ وہ

اپنے گلستان کو ویران کر گۓ وہ
سارے رشتوں سے ناطہ توڑ گۓ وہ

وہ ایک عظیم ہستی
اپنا مقام بنا گۓ وہ

ان سا نہ کوٸ تھا نہ کوٸ ہے
نام وہ اپنا پہچان وہ اپنی چھوڑ گۓ وہ

کتنی محبت پیار سے پالا
اب کسی کے سہارے چھوڑ گۓ وہ

ان جانے سپنے دیکھ کر وہ
ادھورے چھوڑ گۓ وہ

اپنے آپ تکلیفیں اٹھا کر
سب کو خوشیاں دیتے رہے وہ

سب کو ایک بناتے بناتے
سب کو اکیلا چھوڑ گۓ وہ

کاش کہ یہ سب سپنا ہو
آنکھ کھلتے ہی سامنے آجاتے وہ

کاش کہ یہ سب سپنا ہوتا
آنکھ کھلتی تو سامنے آجاتے وہ

عزیز تر وہ مجھے رکھتا تھا رگ جاں سے
یہ بات سچ ہے مرا باپ کم نہ تھا ماں سے

وہ ماں کے کہنے پہ کچھ رعب مجھ پہ رکھتا تھا
یہی تھی وجہ مجھے چومتے جھجھکتا تھا

وہ آشنا مرے ہر کرب سے رہا ہر دم
جو کھل کے جی نہیں پایا مگر سسکتا تھا

جڑی تھی اس کی ہر اک ہاں فقط مری ماں سے
یہ بات سچ ہے مرا باپ کم نہ تھا ماں سے

ہر ایک درد وہ چپ چاپ خود پہ سہتا تھا
تمام عمر وہ اپنوں سے کٹ کے رہتا تھا

وہ لوٹتا تھا کہیں رات دیر کو دن بھر
وجود اس کا پسینے میں ڈھل کے بہتا تھا

گلے تھے پھر بھی مجھے ایسے چاک داماں سے
یہ بات سچ ہے مرا باپ کم نہ تھا ماں سے

پرانا سوٹ پہنتا تھا کم وہ کھاتا تھا
مگر کھلونے مرے سب خرید لاتا تھا

وہ مجھ کو سوئے ہوئے دیکھتا تھا جی بھر کے
نہ جانے سوچ کے کیا کیا وہ مسکراتا تھا

مرے بغیر تھے سب خواب اس کے ویراں سے
یہ بات سچ ہے مرا باپ کم نہ تھا ماں سے

Similar Posts

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *